گوادر، تجاوزات کے خلاف آپریشن ،متاثرین کا داد رسی کون کرے گا، شریف ابراھیم
ملا عبد الباقی کے چہرے پر جھریوں کے نشان واضح نظر آتے ہیں، چہرے سے عیاں ہے کہ اب وہ بڑھاپے کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ ملا عبد الباقی بھی ان متاثرین میں سے ایک ہے جن کی دکان ملا فاضل چوک کے قریب ہے۔ ادارہ ترقیات گوادر کے ذمہ دار کہتے ہیں کہ گوادر کو ترقی دینے کے لئے اسی سڑک کو دو رائے کرکے وسعت دی جائے گی۔
ملا باقی کہتے ہیں کہ یہ دوکانیں ہم نے سلطنت آف عمان دور میں تعمیر کئے ہیں اور ہمارے پاس انکے مالکانہ حقوق کے بھی کاغذات ہیں۔ ادارہ ترقیات گوادر 29 لاکھ دے کر ہمارے دکانوں کو توڑنا چاہتا ہے۔ انکے بقول ان دکانوں کے ساتھ ہمارا ماضی دفن ہے۔
جے یو آئی کے مقامی رہنما حاجی مولا بخش کا کہنا تھا کہ جی ڈی اے کہ اس پروجیکٹ کو 10 سال ہوگئے ہیں مگر فریقین اور ادارہ ترقیات کے درمیان معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے کام رکا ہوا ہے۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ اس شاہراہ کی زد میں آکر 170 دوکانیں اور 6 مکانات متاثر ہوں گے۔
مذاکرات کیوں بے سود
حاجی مولابخش کے مطابق انجمن تاجران اور متاثرین نے کئی بار جی ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ سے میٹنگ کی ہے۔ حالیہ دنوں ڈپٹی کمشنر گوادر اور جی ڈی اے کے آفسران سے ملاقاتیں ہوئیں۔ جسمیں حق دو تحریک بلوچستان کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ ، انجمن تاجران اور متاثرین بھی شامل تھے۔ تو اس سلسلے میں جی ڈی اے کا یہی کہنا تھا کہ ہم صرف غیر قانونی تجاوزات اٹھائیں گے اور دکانوں کو توڑے بغیر روڑ بنائیں گے۔
حاجی مولا بخش کا کہنا تھا کہ متاثرین کسی بھی قسم کے روڑ بنانے کے مخالف نہیں ہم ترقی اور کشادہ روڈ چاہتے ہیں۔مگر ہمارے 170 دوکانیں اور 6 مکانات متاثر ہورئے ہیں ہمیں انکے بدلے میں دوکانیں اور مکانات تعمیر کرکے دئیے جائیں۔
اس حوالے سے انجمن تاجراں ،سول سوسائٹی ،سیاسی جماعتوں اور متاثرین پر مشتمل ایک جوائنٹ کمیٹی تشکیل دی گئی مگر اب تک مذاکرات بے سود رہے۔
متاثرہ دوکاندار رحیم بخش کے مطابق لوکل گورنمنٹ کی جانب سے ہمیں کسی قسم کی نوٹس نہیں دی گئی ہے یہ دوکان لوکل گورنمنٹ کی ملکیت ہیں مگر ہم نے خود یہ دوکانیں بنائی ہیں اور ہم چالیس سالوں سے دکانداری کررہے ہیں اور اب ہم کہاں جائیں۔ انکا مزید کہنا تھا کہ ہمیں لوکل گورنمنٹ نے یہی کہا تھا کہ ہم آپ لوگوں مالکانہ حقوق دیں گے۔انکا مزید کہنا تھا کہ ہمیں جی ڈی اے کی جانب سے بار بار سختی کے ساتھ نوٹس دیا جارہا ہے کہ دوکانیں خالی کی جائیں ورنہ دکانوں کو توڑا جائے گا۔
جی ڈی اے کے چیف انجینئر کا موقف بھی لینا چاہا مگر چیف انجینئر میٹنگ میں مصروف تھے جس کے سبب ان کا موقف شامل نہیں ہوسکا۔
اس بابت معلوم ہوا ہے کہ جی ڈی اے نے متاثرین کو ایوارڈ چیک کی صورت میں بھی دینا چاہے مگر متاثرین نے یہ ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا جن کا کہنا تھا کہ جو رقم ہمیں جی ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ دے رہا ہے وہ ان کے بقول مارکیٹ ویلیو سے بہت کم ہے اور اس سے وہ زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی ان دوکانوں کی تعمیر کرواسکتے۔ متاثرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ میونسپل کمیٹی گوادر نے ملا فاضل چوک میں واقع اپنی جو دوکانیں توڑیں اور انکے بدلے میں متاثرین کرایہ داروں کو نئی دوکانیں بنا کے دیں اسی طرح ہمیں بھی متبادل دکانیں بنا کر دیئے جائیں یا شہر کے کمرشل ایریا میں دکانیں خرید کر انھیں دی جائیں اور ہماری اراضیات کے بدلے زمین اور دوکانیں بنا کے دے دیں۔
آل پارٹیز اور متاثرین کا پریس کانفرنس
آل پارٹیز نے متاثرین کے ساتھ ایک پریس میں کہا ہے کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور متاثرین اس امید پر بیٹھے ہیں کہ کب ضلعی انتظامیہ متاثرین اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو بلا کر پلان بی ان کے سامنے رکھے گی ۔ مگر اس سب کے باوجود چوری چھپے فاضل چوک کے دکان داروں کو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے گرایا جارہا ہے۔جوائنٹ ایکشن کمیٹی متاثرین کے جائز مطالبات اور مسئلے کی حل کے لیے قانونی چارہ جوئی اور انصاف کے لیے عدلیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹائے گی ۔ ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ دانشمندی سے کام لیکر معاملات ٹیبل ٹاک اور گفت شنید سے حل کرائے دباؤ اور زبردستی سے معاملات خراب ہوجاتے ہیں۔ اس سے اجتناب کیا جائے اس موقع پر متاثرین کی کثیر تعداد موجود تھی۔
سرکاری موقف
اس حوالے اسٹنٹ کمشنر گوادر نوید عالم کا کہنا ہے یہاں روڈ سے زیادہ سیوریج کا ہونا اشد ضروری ہے سیوریج کے نہ ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں مچھروں کا بہتات ہوتا ہے۔ ملافاضل چوک، سہرابی وارڈ اور اردگرد میں جب بارش ہوتی ہے تو سارہ نظام دھرم برم ہوکے رہے جاتا ہے جس کی اصل سبب سیوریج کا نہ ہونا ۔ یہاں جب بارش ہوتی ہے تو 3 سے 4 فٹ کا پانی جمع ہوتا ہے ۔ انکا مزید کہنا تھا کہ اس پروجیکٹ کو 2017 میں کنسیف کیا گیا ۔ یہ پروجیکٹ مختلف وجوہات کی بنا پر مکمل نہ ہوسکا ۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ملکر جی ڈی اے کو سپورٹ کریں۔ تاکہ اس روڈ کو کشادہ کیا جائیے سیوریج کا نظام درست ہو، بارش کی وجہ سے لوگ گھروں میں محصور ہوجاتے ہیں بچے اسکول نہیں جاپاتے۔انکا مزید کہنا تھا کہ یہاں جو بھی سیوریج کا سسٹم بنایا گیا تھا وہ 1970 اور 1980 کی ہیں۔ جو کہ نئے سیوریج لائن کی اس جگہ اشد ضرورت ہے۔ یہ کام جی ڈی اے کااہم پروجیکٹ ہے ہم صرف اس کو سپورٹ کررہے ہیں۔ انکا مزید کہنا ہے کہ میں نے خود متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا تھا اور لوگوں کو نوٹس بھی دے گیا تھا۔ اسٹنٹ کمشنر گوادر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک لوگ وہ ہے جو کہ تجاویزات پر بیٹھے ہیں ایک وہ لوگ ہیں جنکی پروپرٹی کواٹھا کہ کمپوزیشن دے کہ اسے دیا جائیگا۔ اس پروجیکٹ میں سارے لوگوں کا سیکشن 80 تک پروزیشن پوری ہوچکی ہیں۔ کمپوزیشن کا پیسہ بھی اکاؤنٹ میں پڑے ہیں ان لوگوں نے ابھی تک نہیں لئیے ہیں۔انکا ایک مطالبہ بھی یہی ہے جو پیسے ہمیں دئیے گئے ہیں وہ بہت کم ہیں ۔ اسسٹنٹ کمشنر گوادر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اُنکے پاس فورم بھی ہے وہ کورٹ میں بھی جاسکتے ہین۔ یا جی ڈی اے سے بھی کنسلٹنٹ کرسکتے ہیں۔ باقی ہم نے فلحال روڈ کے کنارے سے تجاویزات کواٹھادیا ہے ابھی تک کسی بھی دوکان یا مکانات کو نہیں توڑا ہے ۔
انتظامیہ کا آپریشن
6 دسمبر کی رات انتظامیہ نے بھاری مشینری کے ساتھ اسی ایریا کے دکانوں کو بلڈوزر کرنا شروع کیا اور مقامی دکانداروں نے انتظامیہ کے آپریشن کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ متاثرین کے مطابق بلدیہ کے وائس چیئرمین نے ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کے بعد طے ہوا کہ دکانداروں کو الٹی میٹم دیا جائے گا.
مگر اس کے رات کی تاریکی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے نام پر دکانوں کو بلڈوزر کرکے ہمیں سامان نکالنے کا موقع تک فراہم نہیں کیا گیا۔ انتظامیہ کے اس حرکت کے خلاف متاثرین نے نہ صرف احتجاج ریکارڈ کروایا بلکہ جزوی طور پر شہر میں ہڑتال رہی۔
بعد ازاں جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور ضلعی حکام کے درمیان ایک اجلاس بھی ہوئی جس میں ضلعی حکام نے یقین دلایا کہ جب متاثرین کے مسلئہ حل نہیں ہوگا اب تجاوزات کے خلاف ایکشن نہیں ہوگا۔