اگر صوبوں میں زیادہ گھمبیر سیاسی صورتحال کس صوبے کی ہے س بات کا اندازہ موجودہ وفاقی نگران سیٹ اپ سے لگایا جاسکتا ہے۔ کس صوبے سے تعلق رکھنے والوں کو اہم عہدے سونپے گئے تاکہ ان کی صلاحیتیں اور قابلیت اس صوبے میں کار آمد ہوسکیں اور ریاستی رٹ کو قائم کیا جاسکے۔ موجودہ نگران سیٹ اپ میں اہم عہدوں سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والوں کو نوازا گیا۔ جن میں نگران وزیراعظم اور وفاقی وزیر داخلہ شامل ہیں۔پنڈی سے تعلق رکھنے والے ریاستی واجہ کاروں (ریاست کے سربراہ) کے سامنے پنجاب میں پنجابی ایلیٹ کلاس کی بغاوت سے زیادہ بلوچستان میں جاری مزاحمت کاری اہم ہے۔ پنجابی ایلیٹ کلاس کی قیادت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کررہے تھے۔ جبکہ بلوچستان میں جاری انسرجنسی کی قیادت بلوچ مزاحمت کار کررہے ہیں۔واجہ کاروں نے پنجاب میں 9 مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف کو مختلف دھڑوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کرنے میں کامیابی حاصل کی اور چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں ڈال دیا جس سے کافی حد تک یہ معاملہ دب گیاہے۔ پنجابی ایلیٹ کلاس کو کنٹرول کرنا اس لئے مشکل نہیں تھا کیونکہ اس تحریک میں سیاسی کلچر کا فقدان تھا۔ جذباتیت کا عنصر زیادہ تھا۔ جبکہ ماضی کی طرف نظر دوڑائی جائے تو تحریک انصاف واجہ کاروں نے تشکیل دی تھی۔ پارٹی میں لوگوں میں شامل کروایا گیا۔ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو جتوایا گیا۔ جس طرح مشرف کے دور حکومت میں مسلم لیگ ق کو آشیر آباد حاصل تھی۔اسی طرح پی ٹی آئی کو اکسیجن دیاجاتارہا۔ جب واجہ کاروں کو آنکھیں دکھائی گئیں تو انصافیوں کے غبارے سے ہوا نکال دی گئی۔
بلوچستان کا مسئلہ پنجاب سے مختلف ہے۔ بلوچستان میں چلنے والی تحریک طویل عرصے سے چل رہی ہے جو سیاسی بنیادوں پر چلائی جارہی ہے۔ ایک تنظیم جاتی کی بنیاد پر چل رہی ہے۔وہ تنظیمیں اپنے اندر ایک سیاسی کلچر رکھتی ہیں۔ اور سیاسی ڈھانچہ بھی مضبوط شکل میں موجود ہ۔ ان جماعتوں میں شخصیت پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہر دو سال بعد جماعتوں اور تنظیموں کے انتخابات ہوتے ہیں۔ ان کے عہدیداروں کے پاس مینڈیٹ ہوتاہے۔ کارکردگی کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں۔ ایک مکمل سیاسی کلچر موجود ہے۔ قیادت سیاسی بصیرت کے ساتھ فیصلے کرتی ہے۔ معروضی حالات کے مطابق سیاسی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے۔ جذباتیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اس صورتحال میں واجہ کاروں کے سامنے بلوچستان ایک آتش فشاں کی مانند ہے۔ شاید انہیں اس بات کا ادراک ہے۔ بلوچستان میں تین اقسام کے اسٹاک ہولڈرز ہیں۔ ایک طرف واجہ کار اس کے اتحادی، نواب، سردار اور مسلح جھتے ہیں۔ دوسری جانب پارلیمانی جماعتیں ہیں جن میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)،نیشنل پارٹی اور دیگر شامل ہیں۔ یہ پارلیمانی جماعتیں سیاسی مصلحت پرستی کا شکار ہیں۔ کیونکہ انہیں اقتدار حاصل کرنے کے لئے مصلحت پرستی سے کام لینا پڑتا ہے۔اور یہ بات عیاں ہے کہ اقتدار کی کنجی واجہ کاروں کے پاس ہے۔تیسری جانب بلوچ مزاحمتکار تنظیمیں ہیں جو مسلح جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ملک کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) اور بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) ہیں۔ دونوں تنظیموں کاعسکری سرگرمیوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ تاہم اس کے باوجود دونوں تنظیموں پر غیر سرکاری واجہ کاروں کی جانب سے پابندی لگائی گئی ہے۔ یہاں تک کہ ان کے بیانات بھی میڈیا میں شائع نہیں کی جاتیں۔دونوں تنظیموں کے سربراہوں کی مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہیں۔ جن میں سرفہرست غلام محمد بلوچ، رضا جہانگیر، ڈاکٹر منان بلوچ اور دیگر شامل ہیں۔ اور دونوں تنظیموں کے سرکردہ رہنمائیں لاپتہ بھی ہیں۔ جن میں ڈاکٹر دین محمد بلوچ، ذاکر مجید، زاہد بلوچ، شبیر بلوچ اور دیگر شامل ہیں۔ دونوں تنظیمیں مارکسٹ تنظیمیں ہیں۔ یہ تنظیمیں بلوچ معاشرے میں قومی جبر کے ساتھ طبقاتی جبر کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ بلوچستان میں سرداری نظام کا خاتمہ ان کی اولین ترجیح ہے۔ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ سردار بھی عام بلوچ کے سیاسی و معاشی استحصال میں برابر کے حصہ دار ہیں۔ملک میں بالادست قوم (پنجابی) اور سرداروں کا اتحاد ہے۔ دونوں مظالم ڈھانے میں ایک پیج پر ہیں۔
واجہ کاروں نے بلوچستان میں سرداری نظام کو ایک پالیسی کے تحت منظم کیا ان کے ساتھ ایک اتحادی کے طورپر کام کرتے ہیں۔ ان کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بلوچستان میں معاشرتی اور سماجی ترقی کی سست رفتاری کی سب سے بڑی وجہ نیم قبائلی نظام ہے۔ بلوچستان میں ایک پالیسی کے تحت فرسودہ قبائلی نظام کو زندہ رکھاگیا۔ بلوچستان میں آج بھی سرکاری سرداروں اور نوابوں کو منتخب کروایا جاتا ہے۔ واجہ کار سرداریت کے نیم مردہ ڈھانچے کوآکسیجن فراہم کرتے ہیں۔جس کی وجہ سے قبائلی نظام نے علاقے میں اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں۔ بلوچستان میں فرسودہ قبائلی سوچ کو غریب عوام پر مسلط کردیاگیا ہے۔ انہیں قبائل میں تقسیم کردیاگیا ہے۔جس سے بلوچ مرکزیت کو نقصان پہنچا ہے۔ بلوچ کی اجتماعی سیاسی قوت کو مضبوط و مستحکم کرنے نہیں دیا جارہا۔ ایک قبیلے کو دوسرے قبیلے سے دست وگریبان کروایا جاتا ہے۔معاشرے میں سیاسی شعور کا خاتمہ کیاگیا۔ علاقے میں سیاسی جماعتوں کو پلنے پھولنے نہیں دیاگیا جس کی وجہ سے فرسودہ قبائلیت کے خلاف قومی سطح کی مزاحمتی تحریک ابھر نہ سکی۔ تحریک ابھرنے کے لئے سیاسی شعور ضروری ہے جبکہ سیاسی شعور تعلیم اور تربیت سے ملتی ہے۔ واجہ کاروں نے چند سرداروں کے ساتھ ملکر عوام کو تعلیم سے دور رکھا۔ عوام کو قبائل کے نام پر تقسیم کیاگیا۔ ایک قبیلے کو دوسرے قبائل سے لڑوایاگیا۔ آج ضلعی انتظامیہ، پولیس اور دیگر اداروں کے سربراہ سرداروں کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ کیونکہ ان کی مرضی سے یہاں ان کی تعیناتی ہوتی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ (واجہ کار) اور قبائلی عمائدین کا طبقہ ایک ہے۔ ان کے مفادات مشترکہ ہیں۔ ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ اقتدار پر قبضہ جمانا۔ نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والوں کا استحصال کرنا ہے۔ سماجی نابرابری کو برقرار رکھنا ہے۔
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور نگران وفاقی وزیر داخلہ میر سرفرا بگٹی کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی، قانونی اور آئینی طریقوں سے حل کروائیں گے؟ یا عسکری طریقوں سے حکمت علمی اپنائی جائیں گی؟
واجہ کاروں کو بلوچستان کا پرامن طریقوں سے حل تلاش کرنا ہوگا۔ جس میں آئین و قانون کا راستہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ اگر بلوچستان کا مسئلہ طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی گئی تو بلوچستان میں انسرجنسی مزید بڑھ سکتی ہے جس کی وجہ سے حالات مزید بے قابو ہوجائیں گے۔
بشکریہ… روزنامہ آزادی کوئٹہ