تحریر: انور ساجدی
20جولائی 1969 کو امریکہ نے اپنے خلا باز کامیابی کے ساتھ چاند پر بھیجے تھے اور خلا باز نیل آمسٹرانگ دنیا کے پہلے انسان تھے جس نے چاند پر قدم رکھے تھے۔ اس خبر نے ساری دنیا میں تہلکہ مچایا تھا اور لوگ ششدر تھے۔ لیکن علماءکا طبقہ یہ ماننے کو تیار نہیں تھا اور وہ اسے امریکی چال اور ڈرامہ سمجھتا تھا۔ اس واقعہ کے بعد بلوچستان کے شہر لورالائی کی مسجد میں لوگوں کے درمیان بحث ہورہی تھی تو ایک شخص نے واقعہ کی حقیقت بیان کرنے والے دوسرے شخص کو قتل کردیا۔ چاند پر انسان پہنچنے کے بعد امریکہ خلائی میدان میں چھا گیا جبکہ اس سے قبل روس کو بالادستی حاصل تھی۔ فی زمانہ امریکہ، روس اور چین ایسے ممالک ہیں جن کے خلائی پروگرام بہت آگے ہیں لیکن حال ہی میں انڈیا نے اپنا خلائی مشن کامیابی کے ساتھ چاند کے جنوبی کرہ پر اتار کر چوتھی بڑی طاقت کی حیثیت حاصل کرلی۔ اتفاق سے جس دن چندریان چاند پر اترا اسی دن انڈیا دنیا کی چوتھی معیشت کی حیثیت اختیار کرگیا تھا۔ وہ جرمنی سے بال برابر پیچھے ہے اور بہت جلد وہ جرمنی سے آگے بڑھ کر جاپان کی جگہ لینے کی کوشش شروع کردے گا۔ اگرچہ سماجی اعتبار سے انڈیا کی ترقی متاثر کن نہیں ہے۔ ذات پات کی فرسودہ روایت ابھی تک قائم ہے۔ اتنی ترقی کے باوجود غربت بے تحاشہ ہے لیکن چین کے بعد انڈیا واحد ملک ہے جس نے کروڑوں لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپرپہنچایا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک برملا کہتے ہیں کہ رواں صدی ایشیا کی صدی ہے یہ چین اور انڈیا کی صدی ہے۔ پیشنگوئیوں کے مطابق اگر کوئی انہونی نہ ہوئی تو چین امریکہ کی جگہ لے گا لیکن امریکہ بھی پیچھے رہنے والا نہیں ہے۔ وہ بے شک سائنسی اور معاشی ترقی میں پیچھے چلا جاتا ہے لیکن اس کے پاس سازش کرنے اور دنیا کے امن و تہہ و بالا کرنے کی صلاحیت سب سے زیادہ ہے۔ حال ہی میں چین نے الزام لگایا کہ امریکہ نے کرونا جیسی وبا تیار کرلی ہے جسے وہ کسی وقت بھی دنیا میں چھوڑ دے گا جس سے کرونا سے زیادہ لوگ موت کا شکار ہوجائیں گے۔ چین کے بقول امریکہ نے اس ممکنہ وبا کی ویکسین بھی تیار کرلی ہے جس کے استعمال کے بعد امریکی دوائی کمپنیوں کے ذریعے کھربوں ڈالر امریکہ کی جیب میں چلے جائےن گے۔ اگرچہ ابھی تک دیگر سیاروں پر زندگی کے آثار نہیں ملے ہیں لیکن چین، روس، امریکہ اور انڈیا کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ممالک مستقبل قریب میں اپنے خطرناک ہتھیاروں کے تجربات خلا میں کریں گے جس کے نتیجے میں زمین کے بعد خلا بھی آلودہ ہوجائیگا۔ کیا پتہ کہ زمین سے زیادہ وسائل دیگر سیاروں میں ہوں جنہیں یہ طاقت ور ملک بروئے کار لا کر اپنی دولت اور طاقت میں اضافہ کا سبب بنائیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان نے بھارت کی خلائی کامیابی پر اسے مبارکباد دی ہے اور چاند پر مشن بھیجنے کی کامیابی کی تعریف کی ہے۔ ادھر ہمارے روحانی کمانڈر لال ٹوپی والے مجاہد زید بن حامد نا صرف انڈیا کو ختم کرنے کا کامیاب منصوبے بنا چکے ہیں بلکہ وہ کئی سال سے یہ مژدہ بھی سنا رہے ہیں کہ بہت جلد پاکستان خلا کو مسخر کرے گا اور اپنے مشن دیگر سیاروں پر بھیج کر دشمنوں کو نیچا دکھائے گا۔ موصوف حکیم الامت شاعر مشرق حضرت علامہ سر محمد اقبال کے پیرو کار ہیں جنہوں نے تخلیات میں کئی بار بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دیئے ہیں۔ اندازہ لگایئے کہ یہی موصوف حساس مقامات پر لیکچر دیتے تھے یا انہیں اس کی دعوت دی جاتی ہے جہاں وہ دو قومی نظریہ سے لے کر امت کی تشکیل اور دنیا پر مسلمانوں کی حکمرانی کی پیشنگوئیاں کرتے تھے۔ زید بن حامد زمان پر کیا موقوف اس طرح کے بے شمار دانشور موجود ہیں جنہیں پکا یقین ہے کہ کوئی محمد بن قاسم آئیگا یا سلطان صلاح الدین آکر فتح مبین دلائے گا۔ اس خواب کے پیچھے کئی اعلیٰ دماغ حکمران بھی کارفرما تھے۔ جن میں مدظلہ جنرل ضیاءالحق سرفہرست ہیں ۔ لیکن یہ خواب اور تخلیاتی نظریہ بہت بھاری پڑ گیا ہے۔ پاکستان تعلیم اور سائنس کے شعبے میں دنیا کے 2سو ممالک کی آخری صف میں شامل ہے۔ ملک بھر کی یونیورسٹیاں اپنے اسٹاف کو تنخواہ دینے سے قاصر ہیں۔ 18ویں ترمیم کے تحت یہ صوبائی شعبہ قرار دیا گیا تھا لیکن مرکز نے اسے نہےں مانا۔ صرف 18 ویں ترمیم کیا پورا آئین معطل ہے ملک میں صدر موجود ہے لیکن کوئی اس کی بات ماننے کو تیار نہیں۔ سپریم کورٹ موجود ہے لیکن اس کے احکامات ہوا میں معلق ہیں۔ جج صاحبان کے ہاں انصاف کا ترازو ایک طرف جھکا ہوا نظر آتا ہے۔ ترقی تو دور کی بات مختلف محکموں کا خسارہ پورا کرنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ عوام نان شبینہ کو محتاج ہیں۔ درمیانی طبقہ کی آمدنی اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے زیادہ بجلی کے بل آرہے ہیں۔ کسی کو معلوم نہےں کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ جو ضعیف اور ناتواں نگران حکومتیں قائم کی گئی ہیں ان کا انتخاب بہت بڑے مشن کی طرف اشارہ کرتا ہے، حکومت کا مہنگائی سمیت کسی چیز پرکوئی کنٹرول نہیں ہے۔ جان بچانا ایک بہت بڑا ہنر بن گیا ہے۔ رﺅسا کا ایک طبقہ دن دہاڑے عوام کا قاتل اور رہزن بن چکا ہے۔ پنجاب میں ایک جج نے ایک نابالغ کنیز لڑکی پر اتنا تشدد کیا کہ وہ اسپتال میں ابھی تک جان بلب ہے۔ سندھ میں پیر رانی پورکے گدی نشینوںنے ایک 10سالہ کنیز کو جان سے مار دیا۔ استاد وجاہت مسعود کے مطابق 1950 کی دہائی میں انڈیا کے حصہ میں جانے والی ریاست جونا گڑھ کی ملکہ نے ایک کمسن ملازم کو باتھ روم جانے کی گستاخی پر قتل کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جونا گڑھ میں ان کی پانچ سو کنیزیں تھیں وہاں وہ اپنی مرضی سے سلوک کرتی تھی۔ یہ پہلا قتل تھا کہ قاتلہ کو رہا کردیا گیا یعنی اشرافیہ کے جرائم کو معاف کرنے کی یہ روایت نئی نہیں۔ جب سے ریاست وجود میں آئی ہے اس طبقہ کو ہر طرح کے جرم کے ارتکاب کا حق حاصل ہے۔
حال ہی میں ڈولی کا واقعہ ہوا جس میں سات بچے 12گھنٹے تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے۔ اگر ریاست کا یہ حال ہے کہ وہ 12گھنٹے تک سات معلق بچوں کو نہیں اتار سکی تو وہ اپنے عوام کو بڑی آفات سے کیسے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اس وقعہ کا کریڈٹ لینے کے معاملہ پر جو کچھ ہوا وہ الگ سے افسوسناک ہے۔ حقیقت کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ صدر نے باقاعدہ طور پر شکایت کی ہے کہ دو بلوں پر ان کے جعلی دستخط کئے گئے۔
کئی سیاسی مبصرین اور آئینی ماہرین کا برملا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے جاتے جاتے جو 75بل منظور کروائے اس سے نام نہاد جمہوریت کی بساط لپیٹی جاچکی ہے جس کے نتیجے میں الیکشن ہوں گے تو مذاق ہوں گے۔ پارلیمنٹ قائم ہوگی تو جعلی ہوگی جو حکومت بنے گی وہ غیر نمائندہ اور غیر حقیقی ہوگی۔ آئین کی وقعت ہمیشہ کمزور رہے گی، اطلاعات پر پابندی دائمی ہوگی یعنی ریاست اپنی ہیئت اور ساخت کے لحاظ سے مصر، ترکی، افغانستان، روس، برما اور چین کی مانند ہوگی۔ فرق یہ ہے کہ وہاں جو بھی نظام ہے وہ مستحکم ہے جبکہ یہاں آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والا مسئلہ چل رہا ہے۔ جو امکانات نظر آرہے ہیں دنیا بے شک چاند اور مریخ پر جائے ہم ڈولی کیبل کار تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ ریاست ناقابل فہم انسانی المیوں کا شکار رہے گی۔ لگتا ہے کہ 1969 میں لورالائی کے ملا نے سچ بولا تھا کہ امریکی خلائی جہاز اس وقت اترا تھا جب چودہویں کا چاند تھا۔ اگر وہ پہلے دن کے ہلال پر اترتا تب اسے پتہ چلتا۔
بشکریہ… ڈیلی انتخاب نیوز