سیلاب کو نہ روکیے رستہ بنائیے۔ ناصر رحیم سہرابی

گوادر( سٹی نیوز ڈیسک) گْوادر پورٹ اتھارٹی GPA کی جانب سےگْوادر میں اختتام فروری کی بارشوں سے متاثرہ لوگوں کےلیے ایک کروڈ روپے ضلعی انتظامیہ کو پیش کرنا ایک قابل تعریف عمل ہے۔ بلاشبہ موجودہ چیئیرمین بلیدی صاحب نے جی پی اے کی سماجی وعوامی خدمات کے شعبے کو وسعت اور جدت دی ہے۔
تاہم گْوادر کی مختلف آبادیوں میں سینکڑوں مکانات اوردوکانوں کو پہنچنے والے نقصانات اور تباہی میں گْوادر پورٹ اتھارٹی کی منصوبہ بندی اور فیصلوں کا بھی ایک اہم اور بڑا حصہ ہے۔ عام طور پر ادارہ ترقیات گْوادر GDA گْوادر کے زبوں حالی کی ذمہ دار بتائی جاتی ہے جو بہت حد تک درست ہے۔ خاص طور پر ڈرینیج اور سیوریج پراجیکٹ کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد کا معیار جی ڈی اے کا پیچھا کرتی رہے گی ۔ لیکن گْوادر میں بارش کے پانی کی نکاس میں رکاوٹیں یا باتیل کی پہاڑی سے آنے والے ریلوں کا راستہ آبادی کی طرف کرنے میں اہم ترین اور بنیادی کردار گْوادرپورٹ اتھارٹی کا ہے۔ پینتالیس پچاس برس کی عمر کو پہنچنے والاگْوادر کا ہر باسی یہ بات جانتا ہے کہ تیز بارشوں کے بعد کوہ باتیل کے دامن سے لیکر قبرستان، موسی موڑ، شیخ عمر وارڈ، پُرانامارکیٹ، سہرابی وارڈ، فاضل چوک ، جنت بازار، گزروان، تا بلوچ وارڈ و نگواری وارڈ میں بارش کے پانی کے نکاس یا قدرتی ڈرینیج کا رخ مشرقی ساحل یا ایسٹ بے کی طرف ہے۔

 

بلدیہ گْوادر کے تمام ڈرینیج لائن اسی رُخ پہ تعمیر کئے گئے تھے جن میں بند یا چوک ہونے کے علاوہ پانی کی نکاس میں کوئی رکاوٹ کم ہی پیش آتی تھی۔لیکن گْوادر پورٹ کو مکُران کوسٹل ہائیوے سے ملانے کے لیے تعمیر کی گئی دیمی زِر یا ایسٹ بے ایکسپریس وے کی تعمیر سے گْوادر شہر میں بارش کے پانی کے نکاس کے تمام قدرتی راستے بندہوکر رہ گئے۔ حالانکہ ایسٹ بے ایکسپریس وے کی سماجی و معاشی اثرات کے جائزے کی پبلک ہئیرنگ میں جو غالبا 2016 یا 2017میں جی پی اے ریسٹ ہاوس میں ہوئی تھی، لوگوں نے بارش کے پانی کے نکاس اور دیمی زر پر آباد ماہی گیروں کی ساحل تک رسائی کے اہم نقاط پر بھرپور سوالات اٹھائے بھی تھے مگر ادارے کے ماہرین نے انکواپنی منصوبہ بندی کا حصہ بناکر ایکسپریس وے کے ڈیزائن میں تبدیلیاں لانا مناسب نہیں سمجھا۔ میں ثابت تو نہیں کرسکتا مگر میرا گمان ہے کہ شاید ایکسپریس وے کی وجہ سے ہی 2015 میں گْوادر سطح ِزمین کے خدوخال کے برعکس جی ڈی اے کے ڈرینیج کی پلاننگ مغرب سے مشرق کے بجائے مشرق سےمغرب کے رُخ پر کی گئی۔ اس پراجیکٹ کی اکلوتی عوامی شنوائی میں بھی گْوادر تمام عوامی و سماجی نمائندوں نے اس پلان کی کمزوریوں کو کھل کر بیان کیا اور اس کو بدلنے کا مطالبہ کیا مگر کنسلٹنٹ اور جی ڈی اے کے انجنئیرز اس حد تک بضد رہے کہ اگر ڈرین اور سیوریج کام نہ کریں تو ہمیں پوچھیں۔ الغرض ایسٹ بے ایکسپریس وے کو تعمیر کے دوران ایک مقدس گائے کی حیثیت حاصل رہی۔ برساتی پانی کا نکاس اپنی جگہ ملا بند تا بلوچ وارڈ، دیمی زر پر آباد ماہی گیروں کو روزگار کے لیے سمندر آنے جانے کے لیے ایسٹ بے ایکسپریس وےکی ڈیزائننگ میں ایک ایک سو فٹ کی تین گزرگاہیں حاصل کرنے کے لیے پانچ چھ سال تحریک چلانی پڑی اور وزیر اعلی جام کمال اور وزیر اعظم عمران خان تک بات پہنچی۔ بارشیں ویسے بھی کم ہوتی ہیں، نکاسی آب کے لیے کون اتنی بڑی تحریک چلاتا ۔ 2010 میں سمندری طوفان پھیٹ کے بعد یہ سب سے تباہ کن بارشیں تھیں۔ اگر مشرقی ساحل کی طرف ڈرین ہوتیں تو برساتی پانی کا نکاس فوری اور تیز ہوتا اور اس قدر نقصانات بالکل نہیں ہوتے۔ آج جی ڈی اے بھی ان تین گزرگاہوں کو برساتی پانی کو سمندربہانے کے لیے استعمال کررہی ہے۔ کفارےکے طور پر مشرقی ساحل پر ایک سروس روڈ اور محدود ڈرین بھی تعمیر کئے گئےہیں جو ادارے کی نیک نامی کا باعث بنی ہیں۔

جی پی اے کو ملابند اور شادو بند کے لوگوں کی ان شکایات کو بھی سنجیدگی سے لینا چاہیئے کہ گْوادر پورٹ کے احاطے سے بھی ایک بڑا ریلہ ہر بارش کے بعد آبادی کا رخ کرتا ہے۔ کوہ باتیل یا کنڈگ ایریا کا یہ ریلہ پرانا ملا بند کے جنوب اور شمال میں سمندر کو گرتا تھا جس کی گزرگاہوں کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ گوادر فش ہاربر کے احاطے میں بھی ہر بڑی بارش کے بعد کھود کر نہر بنائی جاتی ہے تاکہ بارش کا پانی قریبی آبادی سے سمندر کو بہہ نکلے۔ اب ضرورت ہے ان ہنگامی ڈرینز کو بھر دینے کے بجائے ان کو پختہ بڑے نالوں کی صورت باقاعدہ ڈرین بنایا جائے۔ شادو بند اور گوتری بازار میں بھی ایسے ڈرین کی سخت ضرورت ہے۔
میرین ڈرائیو کی تعمیر سے پدی زر کو نکاس ہونے والی برساتی پانی کے راستے بھی بند ہوگئےہیں جس کے باعث ٹی ٹی کالونی، ظہورشاہ وارڈ، مجاھد وارڈ، ناگمان وارڈ، میر لعل بخش وارڈ اور تھانہ وارڈ میں بھی بارش کا پانی جمع ہواہے اور پراپرٹی کا بڑا نقصان ہوا ہے۔ اولڈ ٹاون بحالی کے پراجکٹس میں عیدگاہ اور ماڈل اسکول کا گراونڈ بھرائی کرنے کے سبب قریبی محلوں میں پانی کی بڑی مقدار جمع ہوئی جس سے ماڈل اسکول کےپیچھے چھوٹے سے محلے میں چالیس سے زیادہ مکانات گرے ہیں۔
یہ صورتحال تباہ کن اور تشیوش ناک ہے اور تقاضہ کرتا ہے کہ گْوادر کے لیے ایک نیا اور وسیع ڈرین سسٹم ناگزیر ہے۔ حالیہ بارشوں میں برساتی پانی نے اپنی ہولناکی اور بہہ نکلنے کے ممکنہ راستے واضح کردئے ہیں۔ امید ہے کہ جی پی اے، جی ڈی اے، بلدیہ گْوادر اور انتظامیہ 2010 کے پھیٹ سائیکلون کے طرح یہ اسباق فراموش نہیں کرےگی بلکہ انھیں ادارہ جاتی حافظے کا حصہ بنانے کے لیے انکی ڈاکومنٹیشن کی جائے گی اور انکی بنیاد پر بھرپور اور فوری پلاننگ کی جائےگی۔ گوادر کی مقامی سیاسی و سماجی قیادت سے بھی توقع ہے کہ ریلیف اور کمپنسییشن کی بھاگ دوڑ میں تباہی کے بنیادی اسباب کونہ خود بھلائے گی اور نہ ادارں کوبھولنے دے گی۔

پورا گوادر شہر پانی میں ڈوباشریف ابراہیمگوادرگوادر سٹی نئوز گوادرگوادر سٹی نیوزگوادر سنگاپور دبئیگوادر سیلابگوادر طوفان
Comments (0)
Add Comment