گوادر میں کشتی سازی کی قدیم صنعت ، ہزاروں خاندانوں کی ذریعہ معاش ۔ظریف بلوچ

گوادر میرین ڈرائیو کے کنارے روڑ کے دائیں جانب سے کشتیاں ہی کشتیاں نظر آتے ہیں اور سینکڑوں مزدور کشتی بناتے ہوئے مصروف نظر آتے ہیں۔ میرین ڈرائیو ( پدی زر) کہنے کو تو گوادر کا ایک وی وی آئی پی شاہراہ ہے جہاں گوادر پورٹ ، شہر کے اکلوتے فائیو اسٹار ہوٹل کو جاتے ہوئے یہی سڑک پر گاڑیاں گزرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس علاقے میں ماہی گیر بھی چائے کی چسکیاں لگاتے ہوئے صرف ماہی گیری اور کشتی سازی پر گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

 

 

حاجی فیض محمد جو کہ اس صنعت سے منسلک ایک ٹھیکہ دار ہے اور انکا کہنا تھا کہ مجھے اس صنعت سے منسلک ہوئے چالیس سال گزر گئے، حاجی نے بتایا کہ میں نے جوانی سے اس صنعت کو اپنا روزگار بنایا ہے اور کشتیاں بناتے ہوئے مجھے چار دہائیاں گزر گئے ۔ انکے مطابق ہمارے پاس مختلف سائز کی کشتیاں بنائے جاتے ہیں اور بڑے سائز کے کشتیاں دو کروڑ روپیے تک تیار ہوتے ہیں۔ جبکہ چھوٹے سائز کی کشتیاں بیس سے چالیس لاکھ تک تیار ہوتے ہیں۔

حاجی فیض نے مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں پریشانی کا سامنا ہے جبکہ پانی کی بھی قلت ہے۔

 

پدی زر میں گھومتے ہوئے جب ہم نے مقامی مزدروں سے حال احوال کیا تو زیادہ تر مزدور کیمرے کے سامنے بات کرنے کو تیار نہیں تھے، البتہ کچھ مزدور بات کرنے پر راضی ہوئے اور ایک مزدور کا کہنا تھا کہ میں کئی سالوں سے کشتی سازی کی صنعت سے روزی روٹی کما رہا ہوں مہنگائی کی وجہ سے جینا مشکل ہے مگر ہم چونکہ کئی دہائیوں سے یہ کام کررہے ہیں اور ہم سے اب دوسرا کام ہوتا نہیں اس لئے باقی زندگی بھی اس کام میں گزارنا پڑے گا۔

کشتی سازی کی صنعت سے کتنے لوگ منسلک ہیں؟

 

حاجی فیض کے مطابق گوادر پدی زر میں کشتی سازی کی صنعت سے دو ہزار کے قریب لوگ منسلک ہیں ان میں ٹھیکہ دار، دیہاڑی دار مزدور سمیت وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اس صنعت سے اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں کیونکہ یہ ایک قدیم اور روایتی صنعت ہے جن میں زیادہ تر لوگ وراثت سے اس کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں اور نسل در نسل یہ کاروبار کررہے ہیں۔

ایک دیہاڑی دار مزدور نے بتایا کہ مجھے یہاں مزدوری کرتے ہوئے روزانہ دو ہزار ملتے ہیں اور جب کام نہیں ہوتا ہے تو کچھ نہیں ملتا بلکہ جب ہم کام کرتے ہیں تو ٹھیکہ دار ہمیں روزانہ دو ہزار دیتا ہے۔ بقول انکے ایک کشتی بنانے میں پانچ سے چھ مزدور کام کرتے ہیں اور چھ ماہ سے ایک سال تک کشتی تیار ہوتا ہے۔

 

کشتی کی زیر آب بنانے کے لئے شاگ نامی لکڑی استعمال کیا جاتا ہے جو برما سے برآمد کی جاتی ہے جبکہ اس صنعت سے منسلک لوگوں کا کہنا ہے کہ اب شاگ لکڑی مہنگی ہوگئی اور اب بلاوہ نامی لکڑی سے کام چلایا جاتا ہے۔ مقامی ماہی گیروں کے مطابق زیر آب چونکہ سمندر کے اندر ہوتی ہے اور اگر زیر آب مضبوط نہیں ہو تو کشتی کے ڈوبنے کا خدشہ ہوتا ہے اس لئے کشتی کی مضبوطی کے لئے زیر آب کے لئے مضبوط لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ کشتی کی دارومدار زیر آب پر ہوتی ہے ۔

اس صنعت سے جڑے ہوئے لوگوں کو مقامی زبان میں وارو کہا جاتا ہے ۔

ویسے بھی دنیا بھر میں جہاں سمندر موجود ہے وہاں کشتیاں ضرور نظر آئیں گے کیونکہ سمندر اور کشتیاں لازم و ملزوم ہیں، مگر گوادر میں کشتی سازی کی صنعت دوسرے ممالک سے اس لئے مختلف ہے کہ یہاں اب بھی بڑے بڑے لانچ بنانے کے لئے مقامی کاریگر روایتی اور قدیم طریقے استعمال کرتے ہیں حالانکہ دنیا بھر میں اس صنعت میں جدت آئی ہے جہاں لوگوں کی جگہ مشینری نے لی ہے مگر گوادر میں اب بھی پچاس فٹ سے بڑے کشتیاں مقامی کاریگر روایتی طریقے سے بناتے ہیں انکے پاس آج تک جدید مشینری نہیں بلکہ یہ سب کچھ ہاتھوں کی ہنر ہے کہ اب تک یہ قدیم صنعت قائم و دائم ہے بلکہ ہزاروں خاندان اس سے منسلک ہیں۔

پدی زر کشتی سازیجی ڈی اے گوادرشریف ابراہیم صدر گوادر پریس کلب گوادرشریف ابراہیم گوادرظریف بلوچظریف بلوچ گوادر سٹی نیوزکشتی سازیکشتی سازی کی صنعتگوادر سٹی نیوز
Comments (0)
Add Comment