کوئٹہ سائنس کالج میں تباہ کن آتشزدگی، تاریخی تعلیمی ریکارڈز راکھ میں تبدیل. دانش حسین لہڑی
بلوچستان کا تاریخی گورنمنٹ سائنس کالج کوئٹہ گزشتہ رات ایک تباہ کن آگ کی زد میں آ گیا، جس کے نتیجے میں کالج کی مرکزی عمارت اور اہم تعلیمی دستاویزات جل کر خاکستر ہوگئیں۔ یہ آگ، جو رات کے وقت بھڑک اٹھی، نے کالج کے وسیع حصے کو شدید نقصان پہنچایا اور طلبہ کے کئی سالوں پر مشتمل تعلیمی ریکارڈ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
بی ایس کوآرڈینیٹر خلیل نے بتایا کہ آگ رات کے وقت لگی اور اس کا علم کالج انتظامیہ کو صبح ہوا۔ خلیل کے مطابق، اس آتشزدگی کے باعث طلبہ کے تمام اہم دستاویزات، جن میں ان کے داخلے سے لے کر تحقیقی مقالے اور دیگر ضروری کاغذات شامل تھے، مکمل طور پر جل چکے ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آگ نے کالج کے قیمتی اثاثوں کو راکھ میں بدل دیا۔
آگ کی شدت اس قدر تھی کہ پورے کالج میں پھیل گئی اور اگر فائر بریگیڈ بروقت نہ پہنچتی تو مزید کئی ڈیپارٹمنٹس بھی تباہی کا شکار ہو جاتے۔ خلیل نے کہا، "اگر آگ کو مزید دو سے تین گھنٹے تک رہنے دیا جاتا، تو کالج کا کوئی حصہ بچ نہ پاتا۔” ان کا کہنا تھا کہ کچھ ڈیپارٹمنٹس اب بھی توڑے محفوظ رہے، لیکن نقصان کا تخمینہ لگانا مشکل ہے۔
آتشزدگی کی وجوہات اور سازش کے خدشات
خلیل نے مزید کہا کہ آگ لگنے کی وجوہات کے بارے میں کوئی حتمی بیان دینا ابھی ممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی، لیکن سوشل میڈیا پر اس حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ بہت سے افراد نے اس امکان کو مسترد کیا ہے کہ آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی ہو، اور اس کے پیچھے کسی سازش کے ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
خلیل نے بتایا کہ انہیں کسی نے رات کے وقت کال کر کے آگ لگنے کی اطلاع دی، اور بعد میں ویڈیوز بھی شیئر کی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ، "میرے دل کو یہ بات قبول نہیں کہ یہ صرف شارٹ سرکٹ کی وجہ سے ہوا ہو۔ موجودہ سیاسی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ امکان ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ اس واقعے کے پیچھے کوئی منظم سازش ہو۔”
خلیل کے مطابق، آگ نے کالج کے تاریخی ریکارڈز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ "یہاں ہر طالب علم کے پچھلے ستر ستر سالوں کے ریکارڈز موجود تھے، جو اب راکھ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔”
صوبائی حکومت کا ردعمل اور تحقیقات کا آغاز
اس تباہ کن واقعے کے بعد صوبائی حکومت نے فوری طور پر نوٹس لیا اور تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم، راحیلہ حمید خان درانی نے سائنس کالج کا دورہ کیا اور موقعے پر ہی انکوائری کا حکم جاری کیا۔ انہوں نے کہا کہ "دہشتگردی کے پہلو کو رد نہیں کیا جا سکتا”، اور اس بات کی سختی سے ہدایت کی کہ اگر شرپسندی ملوث پائی گئی تو ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
راحیلہ حمید خان نے متعلقہ حکام کو یہ بھی ہدایت دی کہ صوبے کے تمام تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی کو مزید سخت کیا جائے اور غیر متعلقہ افراد کے ہاسٹلز میں داخلے پر پابندی عائد کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم ہماری اولین ترجیح ہے، اور ایسے واقعات کو دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے۔
دوسری جانب، وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے فوری رپورٹ طلب کی ہے۔ انہوں نے متاثرہ کالج کی فوری بحالی کے احکامات جاری کیے ہیں اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اس طرح کے واقعات صوبے کی تعلیمی ترقی میں رکاوٹ نہیں بننے چاہییں۔ ان کا کہنا تھا کہ "تعلیم ہماری اولین ترجیح ہے، اور ہم کسی بھی قسم کی رکاوٹ کو برداشت نہیں کریں گے۔”
کالج کی بحالی کے اقدامات اور طلبہ کا ردعمل
سائنس کالج کے طلبہ اور اساتذہ اس واقعے پر شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک طالب علم نے کہا، "یہ کالج ہمارے لیے دوسرا گھر ہے، اور یہاں موجود ریکارڈز ہمارے تعلیمی سفر کا اہم حصہ تھے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کرائی جائیں اور ذمہ داروں کو سخت سزا دی جائے۔”
کالج کے سینئر اساتذہ نے بھی اس واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اس واقعے نے ہماری تعلیمی تاریخ کو ایک بڑے سانحے سے دوچار کیا ہے۔”
حکومت بلوچستان نے کالج کی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ کالج کے تعمیراتی کام کے ساتھ ساتھ، طلبہ کے تباہ شدہ ریکارڈز کی بحالی کے لیے بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ حکومت تعلیم کے میدان میں کسی بھی قسم کی غفلت برداشت نہیں کرے گی، اور کالج کی بحالی کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے گا۔
سازش یا حادثہ؟
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا یہ واقعہ محض ایک حادثہ تھا یا اس کے پیچھے کوئی منظم سازش تھی؟ اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں، اور حکومت نے اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ تمام حقائق کو سامنے لایا جائے گا۔ تاہم، اس واقعے نے سائنس کالج کوئٹہ کی تاریخی اہمیت کو مزید اجاگر کیا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ صوبے کے تعلیمی نظام کی سلامتی پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔