- Advertisement -
گوادر کے مسائل سے متعلقہ نمائندوں کی لاتعلقی ۔ کے بی فراق
- Advertisement -
گوادر وہ بدبخت شہر ہے جس کے ساتھ کسی نے بھی اچھا سلوک نہیں کیا۔گیتی لین یہ وہ محلہ ہے جس کے بغل میں سی پیک کے جھومر کی صفائی پر مامور گوادر پورٹ کا ایک عالی شان دفتر بمعہ عملہ کے موج میں ہے۔اور شہر کے وسط میں جائیں تو گوادر بلدیہ کے چیئرمین کا دفتر ہے اور مزید شمال کی طرف جائیں، ضلع گوادر کے وہ چیئرمین براجمان ہیں۔جس کا گوادر شہر کے معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں۔کہ لوگ مریں یا جئیں، اس کا کوئی واسطہ نہیں۔
اور پدی زر سڑک پر واقع جی ڈی اے کا اے ٹی ایم مشین ہے جو صرف کرارے نوٹ نکالنے کا کام آتا ہے لیکن شہر کے لوگوں کے لیے ، اس کے توسط سے کوئی ایسا فقیدالمثال کام دیکھنے میں نہیں آتا اور اسی طور پبلک ہیلتھ کا بھی دفتر بس یہ رٹ لگائے جاتاہے کہ "ہم تو گوادر کو تین ملین گیلن روزانہ پانی دے رہے ہیں” اس کے باوجود پانی نہین۔اب وہ یہ پتا نہیں لگا پاتے کہ وہ پُراسرار مخلوق کون ہے جو گوادر کے لوگوں کا تین ملین پانی ایک جھٹکے میں پی جاتا ہے اور انھیں پتا بھی نہیں۔جبکہ شہر کے کسی بھی محلہ میں جائیں خواتین کو روڈ پر پانی اور بجلی کے روڈ بلاک کرتے دیکھیں گے اور طرفہ تماشا یہ پے ان کے پاس کوئی بھی نہیں جاتا انتظامیہ، عوامی نمائندے اور برائے نام گوادر کی اپوزیشن پارٹیاں، جانے یہ اپوزیشن کرتے بھی ہیں تو کس وقت کرتے ہیں۔یہ والی پارٹیاں بھی لوگوں کی حال پُرسی کے لیے نہیں جاتے اور نہ ہی ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج پر بیٹھتے ہیں۔
- Advertisement -
اوریہی طور بقولِ شاعر ، نیا ملا بند کے بغل میں وائسرائے کا دفتر ہے جسکی موجودگی میں بھی اہلِ گوادر کو درپیش مسائل سےنجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی اور یہی طور نیا نویلا ایم پی اے جس نے گلا پھاڑ تقریر کرکے ایک ہلے میں مسائل حل کرنے کا یقین دلایا جبکہ اس یقین کے مالک پاکستان کی معلوم تاریخ میں ایک بھی لیڈر نہیں تھالیکن انھوں نے خود سے بڑھ کر نعرے لگائے اور لوگوں کو تھرکنے پر مائل کیا اور ازخود اس کے نیچے دب کے رہ گئے جبکہ پچھلے سال کی بارشوں سے متاثرہ علاقے کے لوگوں کو اور طوفانی بارشوں کے متاثرین کو بھی چکمہ دیا جوکہ اس بابت کچھ کہنے سننے سے بھی قاصر ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
- Advertisement -
اس وقت راوی محض یہ لکھ سکتا ہے کہ یہ دو ٹینکی جو آپ ان کی تصویر دیکھ رہے ہیں مہینہ گزر گیا، پانی ایسی بنیادی انسانی ضرورت سے محروم ہیں۔
جب میں گھر جاتا ہوں تو میری تین سال کی بچی یہ نعرہ لگا رہی ہوتی ہیں کہ "پانی دو بجلی دو ورنہ کُرسی چھوڑ دو”میں حیران و پریشان ہوتا ہوں کہ ستر اسی سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر گیا لیکن عام لوگوں کے لئے نعرہ یہی ایک ہے اس میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا بلکہ دفاتر، اتھارٹیز اور آفیسرز کی لمبی قطار دیکھنے کو ملتی ہے۔
دھیان رہے کچھ اور انسانیت سوز نعرے بھی بطور انعام ریاست کے مظالم کی شکل میں دیے گئے تاہم ان کے ساتھ ہی پانی دو بجلی دو کا نعرہ برابر ساتھ میں سُنائی دیتا ہے۔
کے بی فراق
- Advertisement -