کوئٹہ پریس کلب میں پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک روزہ ورکشاپ
کوئٹہ پریس کلب میں پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک روزہ ورکشاپ بعنوان "مذہبی صحافیوں اور علماء کو بااختیار بنانا امن کی تعمیر کے لیے”۔ منقعد کیا گیا۔
اس ورکشاپ میں صحافیوں، مذہبی اسکالرز اور نوجوان میڈیا ورکرز نے شرکت کی۔ اس ورکشاپ کے دوران آری سے سینئر صحافی منظور احمد اور یونیورسٹی آف بلوچستان کے پروفیسر محمد عارف نے شرکاء کو امن صحافت، تنازعات کے حساس مسائل اور حل صحافت پر تفصیلی لیکچر دیے۔ انہوں نے قیام امن میں صحافیوں کے کردار اور اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔ میڈیا کے سینئر صحافی منظور احمد نے کہا کہ بلوچستان میں اب تک 42 صحافی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دیتے ہوئے قتل ہو چکے ہیں۔ ان تمام چیلنجز کے باوجود صحافی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ بلوچستان کے صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے سے متعلق قوانین پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صوبے کے صحافی بلا خوف و خطر اپنی خدمات سرانجام دے سکیں۔
پروفیسر محمد عارف نے شرکاء کو تنازعات کے حساس معاملے پر رپورٹنگ کے بارے میں بتایا کہ ہم نے اس قسم کے مسائل کی رپورٹنگ کے دوران کس طرح بہتر الفاظ استعمال کیے؟کیونکہ بلوچستان کو تنازعات کے زیادہ خطرے والے علاقوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ جعلی خبروں کی روک تھام کے ساتھ ساتھ جنگ زدہ علاقوں میں امن کے قیام کے لیے صحافت میں ایجادات کے بارے میں بھی شرکاء کو تفصیلی لیکچر دیا۔ مہمان خصوصی شیزان ولیم نے بھی شرکاء کو ’’امپاورنگ مذہبی سکالرز اینڈ جرنلسٹس فار پیس‘‘ کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا اور کہا کہ ورثہ ہمیں بھائی چارے کا سبق دیتا ہے جس سے ہمیں اس جدید دور میں پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ اگر ہم نے اپنے ورثے کا مالک ہونا شروع نہ کیا تو ہمارا معاشرہ ایک بار پھر امن کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ تمام مذاہب ہمیں امن اور بھائی چارے کا درس دیتے ہیں۔ ورکشاپ کے اختتام پر شرکاء میں اسناد اور شیلڈز تقسیم کی گئیں۔ اس موقع پر کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی ثنا اختر بھی موجود تھیں۔