نیشنل پارٹی جمہوری جدوجہد اور عدم تشدد کے سیاسی فلسفہ پر یقین رکھتی ہے. نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء ایم این اے پھلین بلوچ نے گوادر پریس کلب کے پروگرام میٹ دی پریس سے گفتگو
گوادر (رپورٹ.جاوید احمد ) نیشنل پارٹی جمہوری جدوجہد اور عدم تشدد کے سیاسی فلسفہ پر یقین رکھتی ہے۔ بالادست قوتیں بلوچستان کو ایک مخصوص مائنڈ سٹ کے تحت چلاریے ہیں۔ سلگتے بلوچستان میں تدبر کی بجائے طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے۔ مکران بارڈر ٹریڈ پر قدغن لگاکر لوگوں سے روزگار کا حق چھینا جارہا ہے۔ غیرقانونی ٹرالرنگ سے ماہی گیر بدحالی کا شکار ہیں۔ جب بھی موقع ملا ہم نے بلوچستان اور مکران کی حالت زار پر آواز اٹھائی ہے۔ آواز بلند کرتے رہینگے۔ ان خیالات کا اظہار نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء ایم این اے پھلین بلوچ نے گوادر پریس کلب کے پروگرام حال احوال میں بطور مہمان گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے لیکن بدقسمتی سے بلوچستان کے مسائل کے حل اور امن کی بحالی کے لئے کوئی میکنزم سامنے نہیں لایا جارہا ہے صرف ایک میکنزم پر عمل کیا جارہا ہے وہ ہے آپریشن آپریشن لیکن آپریشن سے بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہونگے بل کہ اس سے مزید نفرتیں بڑھ جائینگی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ڈائیلاگ سے حل ہوسکتا ہے تشدد کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں اگر جبر سے مسائل حل ہوتے سری لنکا اور افغانستان ہمارے سامنے مثالیں ہیں جہاں طاقت کے استعمال سے مسائل مزید گھمبیر ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اہلیان مکران سب سے زیادہ ساحل اور بارڈر سے مستفید ہوتے ہیں اور یہی سے ان کے روزگار کا پہیہ چلتا ہے لیکن غیر قانونی ٹرالرنگ سے ساحل کو تباہ کیا جارہا ہے اور بارڈر پر قدغنیں لگائی جارہی ہیں جس سے لاکھوں لوگ اپنے روزگار کے حوالے سے عدم تحفظ اور بے چینی کا شکار بن گئے ہیں اور فاقہ کشی پر مجبور ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ہمارے لئے مزدوی کی بھی ممانعت ہے جب کہ یہاں صنعتیں اور دیگر متبادل روزگار کے ذرائع بھی موجود نہیں ہمارے لوگ جائیں تو کہا جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے سیاسی نظام میں مداخلت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ سب کو تابع بنایا گیا ہے پہلے بلوچستان من پسند امیدوار کامیاب کرائے جاتے تھے لیکن اب اس کا دائرہ کار پاکستان تک پھیلایا گیا ہے نہ پارلیمنٹرین با اختیار اور نہ ہی سول بیوروکریسی، طاقت کا منبع طاقت ور ہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جدوجہد کے دوراستے ہیں ایک جمہوری جدوجہد اور دوسرا مزاحمت لیکن مقتدرہ کو کوئی بھی جدوجہد راس نہیں آتی وہ ہر آواز کو بس دبانا چاہتی ہے آزادی اظہار رائے شجر ممنوعہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک بڑی قوتیں مسلہ کو مسلہ نہ سمجھیں حالات اسی طرح رہینگے۔ پاکستان میں بہتری کی امید فی الحال آب و سراب کے سوا کچھ بھی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں مضبوط اور توانا آواز کی ضرورت ہے اتحاد کی ضرورت ہے بلوچ قوم کو ایک مضبوط فلیٹ فارم کی ضرورت ہے، بلوچ قوم کی ایک فلیٹ پر کبھی بھی متحد نہیں ہوئے جس کی وجہ سے وہ سیاسی اور معاشی مسائل کا شکار ہے۔ ہمارا جغرافیہ نااتفاقی کی وجہ سے مختلف ریجن میں تقسیم ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لئے تمام سیاسی پارٹیوں سے مل کر بات کی ہے لیکن ہر کوئی اپنے آپ کو اپنی چتھری تلے محفوظ سمجھتا ہے، نیشنل پارٹی بلوچستان کے وسیع تر مفاد کے لئے کسی کے ساتھ بھی جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہے۔ انہوں گوادر پریس کلب کی بے باک صحافت کے فروغ کے لئے کردار کو سراہا اور کہا کہ یہاں اظہار رائے پر پابندی لگائی گئی ہے مگر صحافیوں کو درپیش مشکلات کے باوجود ان کا مستقل مزاجی قابل ستائش ہے۔ اس موقع پر نیشنل پارٹی کے صوبائی فشریز سیکریٹری آدم قادربخش، تحصیل جنرل سیکریٹری ولید مجید، نیشنل پارٹی کے رہنماء حفیظ جعفر، عبدالغفور، ھیبتان دشتی، زبیر ہوت، عبدالقادر، نصیر نگوری، بی ایس او پجار کے سی سی ممبر ظریف دشتی، سابقہ چیئرمین میونسپل کمیٹی تمپ ناصر رند اور حاجی محمد شریف زیمل بھی موجود تھے۔